* دھوم تھی اپنی پارسائی کی *
غزل
٭……خواجہ الطاف حسین حالیؔ
دھوم تھی اپنی پارسائی کی
کی بھی اور کس سے آشنائی کی
کیوں بڑھاتے ہو اختلاف بہت
ہم کو طاقت نہیں جدائی کی
منہ کہاں تک چھپائو گے ہم سے
تم کو عادت ہے خود نمائی کی
ملتے غیروں سے ہو ملو لیکن
ہم سے باتیں کرو صفائی کی
نہ ملا کوئی غارت گرِ ایماں
رہ گئی شرم پارسائی کی
موت کی طرح جس سے ڈرتے ہو
ساعت آپہنچی اُس جدائی کی
زندہ پھرنے کی ہوس حالیؔ
انتہا ہے یہ بے حیائی کی
|