* کوئی فاش اُس کو نہ کر سکا یہ جو پردہ & *
غزل
کوئی فاش اُس کو نہ کر سکا یہ جو پردہ ہے یہ جو راز ہے
کہ مجاز میں ہیں حقیقتیں تو حقیقتوں میں مجاز ہے
مری ہر شکست ہے رہنما مجھے ہر شکست پہ ناز ہے
مری زندگی تو بجھی نہیں یہ جو سوز ہے وہی ساز ہے
جو سکوں علامتِ موت ہےوہ مجھے نصیب نہ ہوسکا
ہوئے امتحاں پئے امتحاں مری زندگی کا یہ راز ہے
یہ جودل سے پر شش حال ہے تو اشارے چشم سے کس لئے
کوئی پوچھے اُن سے کہ مہرباں کوئی اس عمل کا جواز ہے
کوئی کہتے کہتے ہی اُٹھ گیا کوئی سنتے سنتے ہی چل دیا
یہ کہانی کتنی طویل ہے یہ فسانہ کتنا دراز ہے
٭٭٭
|