* سوچتا ہوں کہ بے گناہوں پر *
کہمن
امان اللہ امان
انجام
منظر:
سوچتا ہوں کہ بے گناہوں پر
کیوں مصائب کے ہیں بادل چھائے
آگ کیسی لگی ہے گلشن میں
یاسمین، و گلاب مرجھائے
آج نیلام پہ ہے چرخ ان کا
چاند تارے سرِ بازار آئے
وقت آیا ہے کیوں بُراان کا
دور ہیں ان سے ہی ان کے سائے
کہمن:
وہ تونگر تھے لوگ کہتے ہیں
ہر گنہ میں مگر وہ شامل تھے
یہ جو معصوم ہیں ان کے آبا
ظالم و سنگدل تھے، قاتل تھے
٭٭٭
|