* بازار وہ چو راستہ تار تار پور کا *
کہمن
امان اللہ امان
حقیقت
منظر:
بازار وہ چو راستہ تار تار پور کا
تاحشر رہے گا یہ گلستاں سرور کا
چھٹی میں گھر کو بھاگتے اسکول سے بچے
استاد وہ گلزار سے وہ پھول سے بچیّ
مسجد کے پاس مدرسہ آموں کا باغ وہ
بستی ندی کنارے کہ شب میں چراغ وہ
محراب پہ ہلال سا چھت پہ یہ ماہتاب
امرود پہ چڑیوں کی چہک صحن میں گلاب
کہمن:
اُٹھتا ہے دل میں درد کا طوفان، سوچ کر
یہ رشتۂ حیات کبھی ٹوٹ جائے گا
گلیاں ، محلے ، بام و در و ماہ و کہکشاں
افسوس مجھ سے ارض و سما چھوٹ جائے گا
٭٭٭ |