* اجنبی کون یہ آیا ہے مرے گاؤں میں *
اجنبی کون یہ آیا ہے مرے گاؤں میں
ایک ہنگامہ سا برپا ہے تمناؤں میں
روپ کی دھوپ نے وہ لطف دیا ہے کہ مجھے
اب نہ چین آئے گا پیڑوں کی گھنی چھاؤں میں
میں اسیرِ غمِ دنیا، میں اسیرِ غمِ دل
طوق گردن میں نہ زنجیر مرے پاؤں میں
برف کی شکل میں بارود گرا ہے اب کے
خون بہتا ہے مرے دیس کے دریاؤں میں
اتنی مسموم نہیں ہے ابھی شہروں کی فضا
جانے کیوں لوگ نکل آئے ہیں صحراؤں میں
کسی جنگل کو ہے مجنوں کی ضرورت عاصم
ذکر میرا بھی رہے شہر کی لیلاؤں میں
|