* یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریدار *
یہ تو میں
٭…………امیر مینائی
یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میںہوں
تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں
وصل کیسا تیرے نادیدہ خریداروں میں ہوں
واہ رے قسمت کہ اس پر بھی گناہگاروں میںہوں
ناتوانی سے ہے طاقت ناز اٹھانے کی کہاں
کہہ سکوں گا کیونکر کہ تیرے ناز برداروں میں ہوں
ہائے رے غفلت نہیںہے آج تک اتنی خبر
کون ہے مطلوب میں کس کے طلب گاروں میں ہوں
دل جگر دونوں کی لاشیں ہجر میں ہیں سامنے
میں کبھی اس کے کبھی اس کے عزداروں میں ہوں
وقت آرائش پہن کر طوق بولا وہ حسین
اب وہ آزادی کہاں ہے میں بھی فرفتاروں میںہوں
آچکا تھا رحم اس کو سن کے میری بے کسی
درد ظالم بول اٹھا میں اس کے غم خواروں میں ہوں
پھول میں پھولوں میں ہوں، کانٹا کنٹوں میں امیر
یار میں یاروں میں ہوں، عیار ، عیاروں میں ہوں
|