* اس کی حسرت ہے ، جسے دل سے مٹا بھی نہ س *
اس کی حسرت
٭…………امیر مینائی
اس کی حسرت ہے ، جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈ نے اس کو چلاہوں جسے پا ہی نہ سکوں
وصل میں چھیڑا نہ اتنا اسے اے شوق وصال
کہ وہ روٹے تو کسی طرح منا بھی نہ سکوں
ڈال کر خاک مرے خوں پہ، قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں
کوئی پوچھے تو محبت سے یہ کیا ہے انصاف
وہ مجھے دل سے بھلا دے میں بھلابھی نہ سکوں
ہائے کیا سحر ہے یہ حسن کی مانگیں جوحسیں
دل بچا بھی نہ سکوں جان چھڑا بھی نہ سکوں
ایک نالے میں جہاں کو تہہ و بال کر دوں
|