* کہہ رہی ہے حشر میں وہ آنکھ شرمائی ہ *
غزل
٭……امیر احمدامیرؔ مینائی
کہہ رہی ہے حشر میں وہ آنکھ شرمائی ہوئی
ہائے کیسے اس بھری محفل میں رسوائی ہوئی
آئینے میں ہر ادا کو دیکھ کر کہتے ہیں وہ
آج دیکھا چاہئے کس کس کی ہے آئی ہوئی
کہہ تو اے گلچیں اسیرانِ قفس کے واسطے
توڑ لوں دو چار کلیاں میں بھی مرجھائی ہوئی
ٹہں تو رازِ دل چھپائوں ، پر چھپا رہنے بھی دے
جان کی دشمن، یہ ظالم آنکھ للچائی ہوئی
غمزہ و نالہ و ادا سب میں حیا کا ہے لگائو
ہائے رے بچپن کہ شوخی بھی ہے شرمائی ہوئی
وصل میں خالی ہوئی اغیار سے محفل تو کیا؟
شرم بھی جائے تو میں جانوں کہ تنہائی ہوئی
گرد اڑی عاشق کی تربت سے تو جھنجھلا کے کہا
وہ سر چڑھنے لگی پائوں کی ٹھکرائی ہوئی
***** |