* زمیں کا درد یا افلاک کا ستم گزرے *
غزل
زمیں کا درد یا افلاک کا ستم گزرے
کسی سے کچھ نہ کہو جو بھی دل پہ غم گزرے
ہزاروں یادیں ہیں وابستہ تیرے کوچے سے
ترے دیار سے ہم ہوکے چشمِ نم گزرے
جس امتحان سے گزری ہے زندگی میری
اس امتحان سے رفقاء بہت ہی کم گزرے
کھلا ہے سب کے لئے ناخدائے وقت کا در
یہ شرط ہے کہ ہر انسان سر بہ خم گزرے
یہاں سے جب بھی گزر ہو نیا نیا سا لگے
ہزار بار ترے آستاں سے ہم گزرے
سراپا اوڑھے لبادہ غلط سیاست کا
مری نظر سے کئی صاحبِ کرم گزرے
انیس کس کو بتاتے غزل کا پیمانہ
مری نگاہ سے اردو نواز کم گزرے
انیس عظیم آبادی
4/1, Unt Bagan, Mackenzie Road
Kamarhatti, Kol-58
Mob: 9007510176
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|