* زہے نبات لبی وخوشا شکر دہنی *
غزل
زہے نبات لبی وخوشا شکر دہنی
وبال جاں ہے مگر آپ کی یہ کم سخنی
جو چاہے تیشہ اٹھا لے بشغل تیشہ زنی
ہر ایک شخص کا حصہ نہیں ہے کو ہ کنی
زمانے بھر سے ہے نازک مراخیالِ لطیف
مرے خیال سے نازک تمہاری گل بدنی
جو ایک بار نظر پر بنی محبت میں
یہ کیا ستم ہے کہ دل پرہزار باربنی
ہی ہے مطلع موزوں یہی ہے جان غزل
مری جمال طرازی تمہاری سیم تنی
یہ کیا ہوا کہ چمن کو لگا رہی ہے آگ
ہماری شعلہ نوائی گلوں کی شعلہ زنی
نہ جائے گا ترا افلاس ذہن اے انساں
جو تجھ کو مل بھی گئی دولت ہزار فنی
ہر اک دل میں اگر بعض ہے تو پھر اے عرش
تمہارے واسطے لازم ہے سب کی دل شکنی
**** |