* نوجوانوں کی خبر رکھتے ہیں *
نوجوانوں کی خبر رکھتے ہیں
خاندانوں کی خبر رکھتے ہیں
خود نہیں اپنے جہاں سے واقف
دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں
ہم ہیں کچھ ایسے زمیں زاد کہ جو
آسمانوں کہ خبر رکھتے ہیں
دھوپ اپنائی ہے قصداٌ ، گر چہ
سائبانوں کی خبر رکھتے ہیں
بے خبر ہم ہیں فلانوں سے تو کیا
ہم فلانوں کی خبر رکھتے ہیں
بے اماں ہم ہیں ، پر ایسے بھی نہیں!
آشیانوں کی خبر رکھتے ہیں!!
آبشاروں کے وہی ٹہرے امین
جو چٹانوں کی خبر رکھتے ہیں
اپنی تاریخ ہے صدیوں پہ محیط
ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں
کوہ پیمائی کے خواہاں صارم
کب ڈھلانوں کی خبر رکھتے ہیں
**************** |