غزل
ساقی کی عنایات بھُلایا نہ جاے گا
ہر رِند معہ کدے میں بُلایا نہ جاے گا
داغِ جگر تو ہم سے چھُپایا نہ جاے گا
اب اور کو ی ٔ دل میں بسایا نہ جاے گا
ہر ایک کو دردِ دل تو سُنایا نہ جاے گا
پھر ہم سے اپنا حال دیکھایا نہ جاے گا
یہ عشق تو دلوں میں بہاروں کی فصل ہے
ہر باغ میں یہ پھول کھِلایا نہ جاے گا
ساقی کا معہ کدے کا ،سبو کاہو جام کا
اب اور کو یٔ رشتہ نبھایا نہ جاے گا
ان مست نگاہوں کے تصدّوق میں دکھیے
نظروں سے پھر یہ جام پلایا نہ جاے گا
بگڑا ہوا اصول بنایا نہ جاے گا
اب کویٔ معہ کدے سے بھگایا نہ جاے گا
یہ عشق تو بھنور میں پھنسی ایک ناو ٔ ہے
ہر ایک تو کنارے پہ لایا نہ جاے گا
روشن ہے چشمِ نور میں معشوق اسطرح
طوفاں سے بھی چراغ بُجھایا نہ جاے گا
ہے عمرِ روأ کوچۂ معشوق میں گزری
اُن سے تو نقشِ پا بھی مِٹایا نہ جاے گا
میری وفاے ٔ ہار گیٔ بے وفا کے ہاتھ
اب اور نازِ حُسن اُٹھایا نہ جاے گا
غیرت تو بھو ل بیٹھے تھے ہم عشق میں مگر
جاگے ہوے کو اور جگایا نہ جاے گا
گردش نے میری مجھکو سیایا ہے اسقدر
اُن سے چاہ کے بھی ستایا نہ جاے گا
پیبند ِ کفن منطزرِ قبر گاہ ہوں
پھر ہم سے اپنا حال دیکھایا نہ جاے گا
اجداد سے ملی ہے عباے ٔ سخنوری
اصغرؔ کو امتہان میں لایا نا جاے گا
*******************