* سرگرمِ تجلی ہو، اے جلوۂ جانانہ *
غزل
٭……اصغر حسین اصغرؔ گونڈوی
سرگرمِ تجلی ہو، اے جلوۂ جانانہ
اُڑ جائے دھواں بن کر کعبہ ہو کہ بُت خانہ
یہ دین وہ دُنیا ہے، یہ کعبہ وہ بت خانہ
اک اور قدم بڑھ کر اے ہمّتِ مردانہ
اب تک نہیں دیکھا ہے کیا اُس رُخِ خندا ں کو؟
اِک تارِ شعاعی سے الجھا ہے جو پروانہ
زاہد کو تعجب ہے، صوفی کو تحیر ہے
صدشکِ طریقت ہے، اک لغزشِ مستانہ
اِک قطرۂ شبنم پر خورشید ہے عکس آرا
یہ نیستی و ہستی، افسانہ ہے افسانہ
انداز ہے جذب اس میں سب شمع شبستاں کے
اِک حُسن کی دُنیا ہے خاکسترِ پروانہ
|