* یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں *
غزل
٭……اصغر حسین اصغرؔ گونڈوی
یہ عشق نے دیکھا ہے، یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرہ میں سمندر ہے، ذرّہ میں بیاباں ہے
ہے عشق کہ محشر میں یُوں مست و خراماں ہے
دوزخ بگریباں ہے، فردوس بہ داماں ہے
ہے عشق کی شورش سے رعنائی اور زیبائی
جو خون اچھلتا ہے، وہ رنگِ گلستاں ہے
پھر گرم نوازش ہے، ضو مہر درخشاں کی
پھر قطرۂ شبنم میں ہنگامہ طوفاں ہے
سو بار ترا دامن ہاتھوں میں میرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباںہے
اِک شورشِ بے حاصل، اک آتشِ بے پروا
آتشکدۂ دل میں اب کفر نہ ایماں ہے
اصغرؔسے مِلے لیکن اصغرؔ کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
****** |