* یہیں کہیں کوئی نقشِ پا دیکھنا پڑے *
غزل
یہیں کہیں کوئی نقشِ پا دیکھنا پڑے گا
ہمیں مقابل کا حوصلہ دیکھنا پڑے گا
محبتوں کے سفر سے کب واپسی ہوئی ہے
جو لوٹ آئے، انہیں ذرا دیکھنا پڑے گا
بچھڑ گیا تھا مگر وہ دل سے جدا نہیں تھا
کہاں سے ٹوٹا یہ سلسلہ، دیکھنا پڑے گا
بغیر اس کی محبتوں کے گزر گیا وقت
مگر یہ کیسے گزر گیا، دیکھنا پڑے گا
نہ کوئی جگنو، نہ کوئی تارا، نہ ہم سفر ہے
پرائی بستی ہے، راستہ دیکھنا پڑے گا
مرے تعاقب میں تیر جو کھینچتے رہے ہیں
وہ اجنبی تھے کہ آشنا، دیکھنا پڑے گا
سلیم ہاتھوں پہ اپنے کچھ اور تھیں لکیریں
مگر ہوا ہے جو فیصلہ، دیکھنا پڑے گا
With Thanks : Fiza Gilani |