* متاعِ آبرو شیریں کی وہ برباد کر دے *
غزل
متاعِ آبرو شیریں کی وہ برباد کر دے گا
میاں خسرو یہ میرے دور کا فرہاد کر دے گا
نہ جانے کیوں کسی کا باپ یہ کہتے نہیں تھکتا
جو بیٹا کر نہیں پایا مرا داماد کر دے گا
کہاں آئے ہیں لیکر آپ یہ کاسہ گدائی کا
یہ امریکہ نہیں جو آپ کی امداد کر دے گا
تجارت بم کی کرتا تھا بہت خوشحال تھا لیکن
خبر کیا تھی یہ کاروبار بے اولاد کر دے گا
یہاں انگور کے پانی کو سستا کر دیا جائے
مگر یہ حکم حاکم کا ہمیں برباد کر دے گا
فسادوں کا نہ ہونا زخم ہے جسمِ سیاست پر
علاج اس کا بھی کوئی ایک دن ایجاد کر دے گا
وہ بس اتنا کرے گا بعد مرنے کے مرے اشرف
دعائے مغفرت کے واسطے میلاد کر دے گا
اشرف یعقوبی
6/2/H/1, K.B. 1st Lane
Narkeldanga, Kolkata-700011
Mob: 9903511902 / 9835628519
…………………………
|