غزل
بے ستوں ،بے بام ، بے دیوار و در شیشے کا گھر
پتھروں کے شہر میں نا معتبر شیشے کا گھر
کوہساروں کی بلندی لرزہ بر اندام ہے
آنے والے زلزلے سے بے خبر شیشے کا گھر
جسم تو مر ہی چکا تھا روح بھی مجروح ہے
کیسا قاتل ہو گیا ہے ٹوٹ کر شیشے کا گھر
موجزن ہے منجمد یادوں کی برفیلی ندی
تیرتا پھرتا ہے سطح آب پر شیشے کا گھر
ایک اک آواز نشتر ایک اک منظر لہو
دل کا کیا پوچھو ہو اسلمؔ ، ہے جگر شیشے کا گھر
******