تھکن ، خوشبو اور یاس
دفتر میں پھر شام ڈھلی ہے
ورق ورق کالی تحریریں
پھن پھیلائے جھوم رہی ہیں
ٹیلیفون کی پاگل گھنٹی
شیشے کے پردے پر پتھر پھینک رہی ہے
چپراسی کی سادہ بولی
اسٹینو کا پھیکا لہجہ
کانوں میں زہر اُگل رہا ہے
میز کا سارا بوجھ
تھکن سے بوجھل سر پر ٹوٹ رہا ہے
اندر پربت اونچا
باہر ایک خلا ہے
پربت کا ہر کنکر پتھر
جب میری پہچان کا درپن ہو جاتا ہے
سگریٹ کا اک کش لیتا ہوں
خوشبو کے جھونکے آتے ہیں
کھڑکی کی چلمن سے جوہی کی وہ شاخ لچکتی ہو گی
دروازے کی اوٹ سے آدھا چاند سڑک کو تکتا ہوگا
آنکھوں میں جب
گل بوٹے اور چاند ستارے چھا جاتے ہیں
ٹرافک کے سارے سگنل دھندلا جاتے ہیں
لیکن
جب قدموں کی دیوانی آہٹ کو
دروازے کی ویرانی تکنے لگتی ہے
لان کی چنچل ہریالی
ڈسنے لگتی ہے ۔۔۔۔!!
******