غزل
اس شہر میں شب خون کے آثار بہت ہیں
ہم جاگ رہے ہیں ، تو گنہگار بہت ہیں
کب تک میں دکھاتا رہوں زخموں کے دہانے
محسوس کرو تو مرے اشعار بہت ہیں
دشمن نے مری پشت پہ کیوں وار کیا ہے
یہ رسم نبھانے کو مرے یار بہت ہیں
غم خواروں کو بیمارئی دل کا ہے بہت غم
اور دل ہے پریشان کہ غم خوار بہت ہیں
انسان ہو جینے کا سلیقہ بھی تو سیکھو
پھینکی ہوئی ہڈی کے تو حقدار بہت ہیں
اس شہر ستمگار کی بربادی کے سائے
دیوار پہ کم ہیں پس دیوار بہت ہیں
*****