غزل
روشن ہوئے تو گنبد و محراب و در میں تھے
کل تک یہی چراغ ہوائوں کے ڈر میں تھے
کیا پوچھتے ہو خانہ بدوشوں کی خیریت
یادآرہا ہے ہم بھی کبھی اپنے گھر میں تھے
اب خشک ڈالیوں پہ ہیں چیلوں کے گھونسلے
کتنی گھنیری چھائوں تھی ، پھل بھی شجر میں تھے
سب نے خدا بنا لئے پتھر تراش کر
ہم خوش نصیب ہیں کہ صف بے ہنر میں تھے
اسلمؔ ہوائیں بھی تھیں مخالف، افق بھی دور
لیکن وہ حوصلے جو مرے بال و پر میں تھے
******