غــــزل
مشغلہ زیست کا یہ روز و شبانہ ٹھہرا
زلف برہم کے لئے وقت ہی شانہ ٹھہرا
روز اخبار کی تصویر بدل جاتی ہے
اپنی آنکھوں میں کہاں کوئی زمانہ ٹھہرا
یوں تو ہر روز اسی بزم میں آپ آتے تھے
آج کا آنا مگر آپ کا آنا ٹھہرا
زندگی وقت کی رفتار سے ڈر جاتی ہے
زندہ رہنے کے لئے مرنا بہانہ ٹھہرا
اپنی ناکام تمنا کی نشانی ! توبہ
دل تو یادوں کا فقط ایک ٹھکانہ ٹھہرا
ایک دنیا کی نگاہیں ہیں تمہیں پرمرکوز
دل ہے حیران کہ میں کسی کا دوانہ ٹھہرا
ہم نے خوابوں کو بھی سچ ہوتے ہوئے دیکھا ہے
ہے دگر بات کہ یہ سچ بھی فسانہ ٹھہرا
یہ جہاں چھوڑ کر جانا ہے عطا تو بولو
یہ جہاں کس کے لئے اپنا ٹھکانہ ٹھہرا
عطا عابدی ،پٹنہ