* نشاطِ کار سے محروم ہی سہی، ہم بھی *
غزل
٭……عطا عابدی
نشاطِ کار سے محروم ہی سہی، ہم بھی
ہوس سے زیست کی پھر بھی نہیں تہی ہم بھی
ہمیں بھی زعم ہے دانشورانہ منصب کا
ہیں مبتائے فریبِ آگہی ہم بھی
ہیں مٹھیوں میں سبھی رہنما خطوط اگر
اٹھائے پھرتے ہیں کیوں بارِ گمرہی ہم بھی
ہے زیست نام تغیّر کا یہ سُنا تو ہے
وہی ہو تم بھی ، وہی غم بھی اور وہی ہم بھی
اگر ہے دعویٔ الفت تو کیوں اٹھائے پھریں
****** |