متاع_ رسوائی
میں نے چاہا تھا کہ بازار میں رسوائی بکے
آج پاکیزگئی_ لوح و قلم تو نہ بکے
سر_ بازار نہ ہو قلب و نظر کا نیلام
اس طرح ہوش و بصیرت کا بھرم تو نہ بکے
چاک در چاک نہ ہو میرے رسولوں کی قبا
کوچہ در کوچہ، یہ ناموس_ امم تو نہ بکے
میری آنکھوں نے اسی بزم میں دیکھا لیکن
کتنے خوابوں کو، حقیقت کی تجارت کرتے
ہر جگہ مجھ کو ملے ہیں، یہی ارباب خرد
ننگ و ناموس_ بصیرت کی تجارت کرتے
گزرے بازار سے، صاحب نظران محفل
فکر و تخیل کی عظمت کی تجارت کرتے
انتہا یہ ہے کہ، آئینوں کو میں نے پایا
اپنے جوہر کی لطافت کی تجارت کرتے
کچھ نہ باقی رہا، تھذیب_ جنوں کی خاطر
جیب و دامن بکے، پیراہن و دستار بکے
آدمیّت ہے، کہ جنس_ سر_ بازار کوئی
لوگ، سو بار خریدے گئے، سو بار بکے
پاؤں میں، عیش_ غلامی کی چمکتی زنجیر
یوں بھی، آزاد تمدّن کے پرستار بکے
پھر بھی خالی ہی رہا، ذہن و نظر کا کشکول
فن کے آثار بکے، فکر کے شہکار بکے
بر سر_ بزم ہوا غالب و اقبال کا مول
اپنے ہی فن کی دکانوں میں یہ فنکار بکے
کیا کہوں میں، ادب و فن کی گزرگاہوں کا
کتنے پاکیزہ خیالات کا نیلام ہوا
وقت نے چھین لی، احساس کے ماتھے کی شکن
گرمی_ شعلہء جذبات کا نیلام ہوا
پی گئی سختئ حآلات، قلم کی شبنم
ساقی و جام و خرابات کا نیلام ہوا
ابدیّت نہ رہی، فن کی حسیں قدروں کی
عشق و مستی کی روایات کا نیلام ہوا
- اطہر نقوی
**********************