* ---میں جسے اپنی نظر میں تول کر بیٹھا ہ *
---غزل
---میں جسے اپنی نظر میں تول کر بیٹھا ہوا تھا
---وہ پرندہ تو پروں کو کھول کر بیٹھا ہواتھا
--- آخرش بیمار دل کا ہو مداوا کس طرح کہ
---جو لہو میں تلخیوں کو گھول کر بیٹھا ہوا تھا
---کر دیا انمول مجھکو تم نے پھر سے آج یارا
--- میں وگرنہ زندگی بے مول کر بیٹھا ہواتھا
---سانپ پھر منڈلا رہے تھے دوستوں کے روپ میں اور
--میں بھی اپنی آستیں کو کھول کر بیٹھا ہواتھا۔۔
--- زندگی کیوں کھینچ لائی پھر مجھے اُس داستاں میں
---میں تو کردارِ محبت "رول" کر بیٹھا ہوا تھا
--دامنِِ دل پر لگاٰے زخم جس نے میرے عاطف
--میں اُسی کے سامنے دل کھول کر بیٹھا ہوا تھا
(عاطف جاوید عاطف)
|