* یہاں پہ آج ظلم و جبر کو منشور کہتے ہ *
غزل
یہاں پہ آج ظلم و جبر کو منشور کہتے ہیں
زباں پر ڈال کر تالے، اسے دستور کہتے ہیں
نشہ طاقت کا ایسا ہے، نہیں اقدار کی پروا
کسی مجبور کو فرمانروا مغرور کہتے ہیں
وہ جس نے اُمتِ مسلم کے رنج و غم کو اپنایا
اُسی کو آج کے مسند نشیں ناسور کہتے ہیں
کیا ہے قید کچھ لوگوں کو جرمِ بے گناہی پر
جو پابندِ سلاسل ہیں انہیں مفرور کہتے ہیں
مری ارضِ وطن پر اب تو لاشوں کی سیاست ہے
یہاں قاتل بھی اپنے آپ کو منصور کہتے ہیں
میں اُن کی سوچ پر صابر بڑا حیران ہوتا ہوں
جو اک روشن سحر کو بھی شبِ دیجور کہتے ہیں
******* |