* پہاڑوں کے سفر میں دل کشادہ کارگر ن *
غزل
پہاڑوں کے سفر میں دل کشادہ کارگر نکلا
کہ زادِ راہ سے بڑھ کر ارادہ کارگر نکلا
بڑا ہی ناز کرتا تھا جو اپنی شہسواری پر
اُسی کو مات دینے میں پیادہ کارگر نکلا
مرے ترکش میں بس ٹوٹا ہوا اک تیر باقی تھا
مگر میرا نشانہ ہی زیادہ کارگر نکلا
مرے اجداد کی تقلید میں ہے آبرو میری
اُسی بھولے سبق کا وہ اعادہ کارگر نکلا
نہیں اغیار کے کمخواب سے چُھپتا بدن میرا
مرے تن پر میرا اپنا لبادہ کارگر نکلا
ستم گر نے لگائے تھے کئی پہرے زبانوں پر
یہاں صابر قلم سے استفادہ کارگر نکلا
****** |