* وہی رہبر ترقی کے مراحل چھین لیتا ہ *
غزل
وہی رہبر ترقی کے مراحل چھین لیتا ہے
جو اپنی قوم سے عمدہ خصائل چھین لیتا ہے
ہر اک نعمت سے مالا مال ہے ارضِ وطن میری
مگر پھر بھی کوئی میرے وسائل چھین لیتا ہے
تمہیں خود کو بچانا ہے عداوت خاندانی سے
کبھی آپس کا یہ جھگڑا قبائل چھین لیتا ہے
جسے میں نے سکھایا تھا، مدلل گفتگو کرنا
مری باتوں سے وہ سارے دلائل چھین لیتا ہے
ہمارے نوجوانوں میں نشے کا زہر پھیلا کر
کوئی ہاتھوں سے پھر کتب و رسائل چھین لیتا ہے
اُسی فرمانروا کو بس رعایا یاد رکھتی ہے
غریبوں سے جو اُن کے سب مسائل چھین لیتا ہے
جسے سجدے میں سر رکھنے کی فرصت ہی نہیں صابر
خدا اُس کی دعائوں سے فضائل چھین لیتا ہے
With Thanks : Fiza Gilani |