* دِل سے دھڑکن خون سے عزمِ سفر لے جائ *
دِل سے دھڑکن خون سے عزمِ سفر لے جائے گا
وقت اک دن چھین کر سارے ہنر لے جائے گا !
ہاں دُعا مانگی تھی لیکن یہ تو سوچا بھی نہ تھا
موسمِ برسات سب دیوار و در لے جائے گا !
آج اِس تِتلی کو ان پھولون پہ اُڑنے دیجئے ! !
کل کوئی جھونکا ہوا کا اس کے پَر لے جائے گا
تُو کسی اندھے کنوئیں میں جائے تو یہ جان لے
ساتھ ساتھ اپنے یہ میری بھی نظر لے جائے گا
دوسروں کے گھر میں پتھر پھینکنے والے یہ سوچ
تُو بچا کر کس طرح شیشے کا گھر لے جائے گا
شہر کی سڑکوں پہ میرے ساتھ مت نکلو ابھی
جو بھی دیکھے گا اُڑا کر یہ خبر لے جائے گا
سر بلندی جس کا منصب ہے وہ جھُک سکتا نہیں
دستِ قاتِل اُس کا خود نیزے پہ سر لے جائے گا
عظیم امروہی
|