* میسّر ہو جو لمحہ دیکھنے کو *
میسّر ہو جو لمحہ دیکھنے کو
کتابوں میں ہے کیا کیا دیکھنے کو
ہزاروں قد آدم آئینے ہیں
مگر ترسو گے چہرہ دیکھنے کو
ابھی ہیں کچھ پرانی یادگاریں
تم آنا شہر میرا دیکھنے کو
ہوا سے ہی سہی کھلتا تھا اکثر
مجھے بھی اک دریچہ دیکھنے کو
ابھی شاخوں پہ ہیں کچھ پھول اظہر
مجھے کانٹوں میں الجھا دیکھنے کو
اظہر عنائتی
|