* تیری آنکھوں میں کچھ شراب سی ہے *
غزل
تیری آنکھوں میں کچھ شراب سی ہے
میری نیت ذرا خراب سی ہے
نازکی ، سرخی ، تازگی ، خوشبو
آپ کی ہر صفت گلاب سی ہے
ہر کوئی پڑھ رہا ہے کیا کیا کچھ
اس کی صورت کھلی کتاب سی ہے
نیم جاں ہوں ابھی، ابھی بے جاں
کیفیت ماہیٔ بے آب سی ہے
آنکھیں بھیگی ہیں جلتا ہے سینہ
تن میں بے ربطی لاجواب سی ہے
بدر کس شعر کو کرے مقطع
صورت حال انتخاب سی ہے
………………………
|