* دلِ بیتاب جب مچلتا ہے *
غزل
دلِ بیتاب جب مچلتا ہے
سلسلہ دیر تک یہ چلتا ہے
ہے گھڑی دو گھڑی ہنسی لب پر
درد لیکن جگر میں پلتا ہے
جان من آ کہ جان آجائے
وقتِ رخصت ہے دم نکلتا ہے
شہر در شہر ہے وہ تاریکی
اب تو دن میں چراغ جلتا ہے
یوں نہیں شعر بحر میں ڈھلتا
اندر اندر کوئی پگھلتا ہے
شاعر دلنواز بدر ہے تو
تیری باتوں سے دل بہلتا ہے
…………………………
|