* یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایاہوتا *
غزل
٭………بہادر شاہ ظفر
یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایاہوتا
یا مِراتاج گدایا نہ بنایا ہوتا
خاکساری کے لئے گرچہ بنانا تھا مجھے
کاش خاکِ در جانا نہ بنایا ہوتا
نشۂ عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
دلِ صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن
زلفِ مشکیں کا تیری شانہ بنایا ہوتا
صوفیوں کے جو نہ تھا لائقِ صحبت تو مجھے
قابلِ جلسۂ رندانہ بنایا ہوتا
تھا جلانا ہی اگر دوریٔ ساقی سے مجھے
تو چراغِ درمے خانہ بنایا ہوتا
روز معمورۂ دنیا میں خرابی ہے ظفرؔ
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا
|