* بلائیں زلفِ جاناں کی اگر لیتے تو ہ *
غزل
٭………بہادر شاہ ظفر
بلائیں زلفِ جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
بلا یہ کون لیتا جان پر لیتے تو ہم لیتے
اسے کیا کام تھا وہ بے خبر کیوں پوچھتا پھرتا
دلِ گم گشتہ کی اپنے خبر لیتے تو ہم لیتے
نہ لیتا مول سودا کوئی بازارِ محبت کا
مگر کچھ جان اپنی بیچ کر لیتے تو ہم لیتے
نہ ہوتا کوئی منت کش تیری شمشیر کا ہرگز
یہ احساں سر پہ اے بیداد گر لیتے تو ہم لیتے
لگایا جام مے ہونٹوں سے اُس نے ہم کو رشک آیا
کہ بوسہ اُس کے لب کا اے ظفرؔ لیتے تو ہم لیتے
****** |