* کنارے سوکھے سوکھے ہیں *
کہمن
بقا صدیقی
خشک سالی
منظر:
کنارے سوکھے سوکھے ہیں
لبوں پر ان کے کانٹے ہیں
میسر ہی نہیں پانی
بڑی مدت سے پیاسے ہیں
دہکتی ریت اُڑتی ہے
بگولے روز اُٹھتے ہیں
خفا ہیں کالے بادل بھی
جدا آبی پرندے ہیں
کہمن:
اُڑی رنگت ہے چہرے کی
کہ جلوہ اب بھی نہیں جلوہ
نہ کشتی ہے نہ موجیں ہیں
کہ دریا اب نہیں دریا
*** |