* دور جانا گوارا کرتے ہیں *
کہمن
بقا صدیقی
پردیس
منظر:
دور جانا گوارا کرتے ہیں
کھا کے برگر گزار کرتے ہیں
سنگِ تنہائی پہ پٹک کے سر
زیست کو پارہ پارہ کرتے ہیں
ہنستی صبحوں کا، گاتی شاموں کا
خواب ہی میں نظارہ کرتے ہیں
روٹی روزی کی سخت بازی میں
زندگی اپنی ہارا کرتے ہیں
کہمن:
گر نہ مٹّی کو چھوڑ کر جاتے
وہ مصائب کی زد پہ کیوں آتے
گھر میں اپنی ہنسی خوشی رہتے
ان مسائل کی آگ کیوں کھاتے
٭٭٭
|