* حسن جلوہ نہیں عشق کا حاصل تنہا *
غزل
حسن جلوہ نہیں عشق کا حاصل تنہا
کتنے جلوئوں کو سمیٹے ہے مرا دل تنہا
کارواں چھوٹ گیا رات کے سناٹے میں
رہ گئی ساتھ مرے حسرتِ منزل تنہا
عزم ِمحکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفاں کو پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا
حُسن ہنگامۂ بازار میں مصروف رہا
عشق تو چپ ہے سجائے ہوئے محفل تنہا
سب کے ہونٹوں پہ تبسم تھا مرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا
لوگ تو ہو گئے بیکل غمِ دوراں کا شکار
رہ گیا میں ہی زمانے کے مقابل تنہا
٭٭٭
|