* فنا کا ہوش آنا، زندگی کا دردِ سر جا *
غزل
٭……برج نارائن چکبست
فنا کا ہوش آنا، زندگی کا دردِ سر جانا
اجل کیا ہے خُمار بادۂِ ہستی اُتر جانا
عزیزانِ وطن کو غنچہ و برگ و ثمر جانا
خدا کو باغباں اور قوم کو ہم نے شجر جانا
عروسِ جاں نیا پیراہن ہستی بدلتی ہے
فقط تمہید آنے کی ہے دُنیا سے گذر جانا
مصیبت میں بشر کے جو ہر مردانہ کھلتے ہیں
مبارک بزرگوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا
کرشمہ یہ بھی ہے اے بے خبر! افلاسِ قومی کا
تلاشِ رزق میں اہل ہنر کا دربدر جانا
وہ سودا زندگی کا ہے غم انسان سہتا ہے
نہیں تو ہے بہت آسان اس جینے سے مر جانا
چمن زارِ محبت میں اسی نے باغبانی کی
کہ جس نے اپنی محنت ہی کو محنت کا ثمر جانا
|