* مری رسائی سے وہ دور ہے نہ جانے کیوں *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
مری رسائی سے وہ دور ہے نہ جانے کیوں
اسے یہ ہجر ہی منظور ہے نہ جانے کیوں
ہے میرے پیار پہ ایمان اسکا ، ہے معلوم
تقیہ کرنے پہ مجبور ہے نہ جانے کیوں
جسے بھی دیکھئے ڈوبا ہوا ہے عیبوں میں
جسے بھی دیکھئے مغرور ہے نہ جانے کیوں
سبھی کسی نہ کسی کو عزیز رکھتے ہیں
رقیب مجھ پہ ہی معمور ہے نہ جانے کیوں
نہ جانے ہوگی پسینے کی قدرکس جگ میں
کمی میں آج بھی مزدور ہے نہ جانے کیوں
سجی ہے بزم، ہیں سرمست سب کے سب جاوید
بس اک تو ہی نہیں مخمور ہے نہ جانے کیوں
--
|