* اس کی انا تو ظلم و ستم کر کے رہ گئی *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
اس کی انا تو ظلم و ستم کر کے رہ گئی
اور روح میری ماتم_ غم کر کے رہ گئی
حیرت زدہ زمانہ ہے کچھ ایسا حسن ہے
جس کی نگاہ پڑ گئی، جم کر کے رہ گئی
شیطان کھیلتا رہا بربادیوں کے کھیل
تاریخ حادثات رقم کر کے رہ گئی
جیتی زمین تیغ نے، انسانیت فقط
فریاد_ جود و رحم و کرم کر کے رہ گئی
جھوٹی محبت آگے بڑھی ناچتی ہوئی
سچی محبت آنکھوں کو نم کر کے رہ گئی
قدرت نے تو سجائی تھی اک راہ _ مستقیم
اور راہ انتظار_ قدم کر کے رہ گئی
جاوید شاعری نے تری کام کیا کیا
بس خدمت_ دوات و قلم کر کے رہ گئی
*** |