* شبِ الم سے مجھے کوئی کیا نکالے گا *
شبِ الم سے مجھے کوئی کیا نکالے گا
خدا خدا ہے وہی راستہ نکالے گا
گرے گا جا کے وہ اہلِ دول کی چوکھٹ پر
ضرور ان سے کوئی راستہ نکالے گا
وہ جس جگہ بھی بنائے گا چاہتوں کا محل
اسی جگہ سے درِ داخلہ نکالے گا
غزل نہ کیسے ممیز رہے گی محفل میں
الگ تھلگ تو اگر قافیہ نکالے گا
وہ پاک ذات ہے پاکیزگی کرے گا عطا
ہمارے دل سے بھی کبر و ریا نکالے گا
اسی یقین پہ جیتا ہوں کہ مرا مولا
شبِ سیاہ کے تن سے ضیاء نکالے گا
نہ دھنسے دے گا وہ رسوائیوں کی دلدل میں
بڑھا کے ہاتھ مجھے وہ کھرا نکالے گا
اسی لئے تو وہ میرے قریب آیا ہے
ضرور اپنا کوئی مدعا نکالے گا
اگر ہے راستہ دشوار تو فہیم انور
بچا کے میرا وہی قافلہ نکالے گا
*** |