|
* نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں *
غزل
نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں
میں پتھر ہوں‘ پگھلنا چاہتا ہوں
حقیقت مُنکشف ہونے لگی ہے
سرابوں سے نکلنا چاہتا ہوں
چراغِ انجمن کب تک رہوں میں
اب اپنے گھر میں جلنا چاہتا ہوں
مرے اندر سمندر موج زن ہے
کئی دن سے اُبلنا چاہتا ہوں
عطا سنگِ قناعت ہو کہ اُس سے
ہوس کا سر کچلنا چاہتا ہوں
جہاں گر کر کوئی سنبھلا نہیں ہے
وہیں گر کر سنبھلنا چاہتا ہوں
لگا کر داؤ پر اب زندگی کو
انوکھی چال چلنا چاہتا ہوں
بہت ناراض ہیں ظلِّ الٰہی
ذرا لہجہ بدلنا چاہتا ہوں
فراغؔ‘ اب دوستوں کے چہرے پڑھ کر
کفِ افسوس ملنا چاہتا ہوں
فراغ روہوی
67, Maulana Shaukat Ali Street(Colootola St.),Kolkata-700073,INDIA
Mob.:9831775593/9830616464,E-mail:faraghrohvi@gmail.com
|
|