|
* سمندروں سا مسلسل رواں دواں ہی رہا *
غزل
سمندروں سا مسلسل رواں دواں ہی رہا
میں بے کراں تھا سدا سے‘ میں بے کراں ہی رہا
یہ اور بات کہ منزل نہ مِل سکی‘ لیکن
مری اُڑان کا محور تو آسماں ہی رہا
عجب سفر پہ روانہ کیا گیا مجھ کو
کہ ہر پراؤ میں در پیش امتحاں ہی رہا
سفر ہمارے لیے باعثِ ظفر نہ سہی
مگر شکست پہ بھی حوصلہ جواں ہی رہا
حسیں رُتوں کی میں تصویر کھینچتا کیسے
مری نظر میں تو جلتا ہوا سماں ہی رہا
کسی مقام پہ ہم دل کو زیر کر نہ سکے
وہ حکمراں تھا ہمیشہ سے‘ حکمراں ہی رہا
اُسے منانے کے سو سو جتن کیے‘ لیکن
وہ بد گماں تھا کچھ ایسا کہ بد گماں ہی رہا
عبث فراغؔ! اُسے ڈھونڈتا رہا‘ وہ تو
قریبِ جاں تھا ازل سے‘ قریبِ جاں ہی رہا
فراغ روہوی
67, Maulana Shaukat Ali Street(Colootola St.),Kolkata-700073,INDIA
Mob.:9831775593/9830616464,E-mail:faraghrohvi@gmail.com
|
|