|
* اب کوئی خود کو سنبھالے کہ سنبھالے *
غزل
اب کوئی خود کو سنبھالے کہ سنبھالے مجھ کو
ہوش کس میں ہے جو گرنے سے بچالے مجھ کو
وقت گمنام جزیرے سے نکالے مجھ کو
پھر کوئی ہاتھ خلاؤں میں اُچھالے مجھ کو
جب سنبھالا نہ گیا میرے امینوں سے مجھے
وقت نے کر دیا دنیا کے حوالے مجھ کو
سارے چہرے ہیں مرے چہرے سے مِلتے جُلتے
ڈھونڈ ہی لیں گے‘ مگر ڈھونڈنے والے مجھ کو
ظلمتِ شب میں نہ جگنو سا بھٹکتا پھرتا
راس آ جاتے اگر دن کے اُجالے مجھ کو
مجھ کو دم لینا تھا منزل پہ پہنچ کر‘ لیکن
بد دعا دینے لگے پاؤں کے چھالے مجھ کو
میں تو دُشمن کے بلاوے پہ بھی آسکتا ہوں
گر محبت کے حوالے سے بُلالے مجھ کو
میں کوئی مالِ غنیمت تو نہیں ہوں کہ فراغؔ
جس کا جی چاہے وہی آکے اُٹھالے مجھ کو
فراغ روہوی
67, Maulana Shaukat Ali Street(Colootola St.),Kolkata-700073,INDIA
Mob.:9831775593/9830616464,E-mail:faraghrohvi@gmail.com
|
|