|
* دیارِ شب کا مقدر ضرور چمکے گا *
غزل
دیارِ شب کا مقدر ضرور چمکے گا
یہیں کہیں سے چراغوں کا نور چمکے گا
کہاں ہوں میں کوئی موسیٰ کہ اک صدا پہ مری
وہ نور پھر سے سرِ کوہِ طور چمکے گا
ترے جمال کا نشہ شراب جیسا ہے
ہماری آنکھوں سے اس کا سرور چمکے گا
بھرم جو پیاس کا رکھے گا آخری دم تک
اُسی کے ہاتھ میں جامِ طہور چمکے گا
یہ کہہ کے دار پہ خود کو چڑھا دیا میں نے
کہ دار پر بھی سرِ بے قصور چمکے گا
لٹے ہوئے ہیں‘ مگر ہم ابھی نہیں مایوس
ہمارے تاج میں پھر کوہِ نور چمکے گا
تلاش کرتا ہے مجھ مشتِ خاک میں تٗو عبث
غرور ہوگا جبھی تو غرور چمکے گا
مرے ہنر کا گماں ہوگا عیب پر میرے
مری غزل میں جو فن کا شعور چمکے گا
متاعِ فن سے نوازا گیا ہے تجھ کو فراغؔ
اسی سے نام تِرا دور دور چمکے گا
فراغ روہوی
67, Maulana Shaukat Ali Street(Colootola St.),Kolkata-700073,INDIA
Mob.:9831775593/9830616464,E-mail:faraghrohvi@gmail.com
|
|