|
* میں اُس کے فن کا قائل ہو رہا ہوں *
غزل
میں اُس کے فن کا قائل ہو رہا ہوں
ادھورا تھا‘ مکمل ہو رہا ہوں
وجود اپنا تھا کل تک ٹاٹ جیسا
کرم سے اُس کے مخمل ہو رہا ہوں
یہ مجھ میں کون آنسو بو گیا ہے
میں اک صحرا تھا‘ جل تھل ہو رہا ہوں
سمندر کو بہت کھلنے لگا ہے
میں صحراؤں کا بادل ہو رہا ہوں
میں شاخِ جسمِ جاناں سے لپٹ کر
معطر مثلِ صندل ہو رہا ہوں
کسی کے عشق میں حد سے گر ز کر
سنا ہے میں بھی پاگل ہو رہا ہوں
چکانا ہے بہت سا قرض جاں کا
میں اپنی سمت مائل ہو رہا ہوں
نہ جانے کیوںمیں نکتہ چیں کی صورت
دلوں کے بیچ حائل ہو رہا ہوں
ترا لہجہ ہے یا ہے تیر کوئی
زباں کھلتے ہی گھائل ہو رہا ہوں
فراغؔ ایسا معمہ ہوں کہ اب تک
کسی سے بھی کہاں حل ہو رہا ہوں
فراغ روہوی
67, Maulana Shaukat Ali Street(Colootola St.),Kolkata-700073,INDIA
Mob.:9831775593/9830616464,E-mail:faraghrohvi@gmail.com
|
|