* شہر خاموش خزائوں کا نگر لگتا ہے *
غزل
شہر خاموش خزائوں کا نگر لگتا ہے
خشک ہر راہ گزر برگِ شجر لگتا ہے
وقتِ آدم سے ہر اک راز نہاںہے دل میں
کتنا ہمراز یہ آفاق بشر لگتا ہے
کاٹ کر پھینک دیا کرتی تھی جس کو دنیا
اب نمائش میں وہی دستِ ہنر لگتا ہے
بارِ ہستی کے علاوہ نہ رہے کچھ ہمراہ
ذہن کو بار بہت رختِ سفر لگتا ہے
تیری آمد جو نہیں اس میں تو بیکار ہے سب
آج کل دل کا محل بھوت کا گھر لگتا ہے
پھر سماعت کے لئے کان کھڑے ہیںفرحت
اُن کے اندازِ تکلم کا اثر لگتا ہے
فرحت مشتاق
G40, Bangla Basti
Garden Reach
Kolkata-700024
Mob: 9804115141
8296896855
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++ |