* اُس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے م *
اُس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے مجھے
دھوپ خودساختہ دیوار کا سایہ ہے مجھے
پہلے مٹی کو ہواؤں کے کرم پر چھوڑا۔!
اور پھر آگ کے دریا میں گرایا ہے مجھے
کیوں مری روح ہوئی جاتی ہے چھلنی چھلنی
کس لئے کربِ فلسطین بنایا ہے مجھے
مجھ کو بپھرے ہوئے دریا ؤں کی لہر وں میں نہ ڈھونڈ
مجھ سے ٹھہرے ہوئے پانی نے چرا یا ہے مجھے
بارہا بہکے مرے کردہ ثوابوں کے قدم
بارہا میرے گناہوں نے بچایا ہے مجھے
پھر ہواؤں پہ وہی نقشِ صدا ہے آزرؔ
پھر سرابوں کے سمندر نے بلایا ہے مجھے
**** |