نہ جانے شہرِ حقائق نے کیا دکھایا ہے
وہ پھر سے خواب جزیرے پہ لوٹ آیا ہے
وہ مر نہ جائے گناہوں کے بوجھ سے دب کر
تمام نیکیاں دریا میں ڈال آیا ہے
ہوا وجود مٹا دے گی ایک لمحے میں
یہ کس نے پھوس کے گھر میں دیا جلایا ہے
نہ جانے کس کے تصور میں جی رہی ہو گی
خدا نے جس کو مرے واسطے بنایا ہے
درخت اس نے سبھی کاٹ تو دیے لیکن
مرے بدن پہ ابھی میرے سرکا سایہ ہے
اسی غرور میں ہم بھی بہک گیے آزرؔ
کہ اپنے آگے فرشتوں نے سر جھکایا ہے
************