لہجے میں آسمان کی اونچائیاں بھی تھیں
اس کی غزل میں فکر کی گہرائیاں بھی تھیں
ورنہ مرا وجود مجھے مار ڈالتا
شامل مرے مزاج میں خوش فہمیاں بھی تھیں
وہ میرا ہم خیال بھی بالکل نہ تھا مگر
اس کو مرے خیال سے دلچسپیاں بھی تھیں
کچھ اُس کو دیوتا کی طرح مانتا بھی تھا
کچھ اِس میں میری اپنی ادا کاریاں بھی تھیں
جس کو بھی دیکھ لے وہ مریض اس کا ہو گیا
آنکھوں میں اس کی چھوت کی بیماریاں بھی تھیں
*****************