donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Fauzia Akhter Nazeer
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* میری سہیلی سنیتا کی حقیقت سے پُر د *
میری سہیلی سنیتا کی حقیقت سے پُر داستان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی خود کشی کا سانحہ ایک کہانی کی شکل میں آپ کے سامنے پیش ہے۔

"عنوان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  "غلط فہمی 
 
کالج جانے کے لئے ایمن وقت سے ایک گھنٹہ قبل ہی گھر سے نکل آئ۔ وہ جلد سے جلد کالج پہنچنا چاہتی تھی تاکہ ان امیر زادوں کا سامنا نہ کرنا پڑے جو پچھلے ایک ہفتہ سے بڑی سی کار میں بیٹھ کر اس کا پیچھا کر رہے تھے۔ گھر سے کالج کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چل کر کالج پہنچی اور اپنی ٹینشن دور کرنے کے لئے لائبریری میں بیٹھ کر قرۃالعین حیدر کی ایک ناول پڑھنے لگی۔ پہلے پیریڈ کی بیل لگنے پر وہ مس شہناز کا لیکچر اٹینڈ کرنے اپنے کلاس کی طرف بڑھی۔ اس مسؑلہ کو ابھی تک اس نے اپنی واحد سہیلی مدیحہ سے شیئر نہیں کیا تھا۔ لنچ بریک میں اس نے مدیحہ کے ساتھ کینٹین کا رخ کیا جہاں آج بھی وہ موضوع باعثِ توجہ بنا ہوا تھا جس نے تین ماہ قبل شہر میں ہنگامہ مچا دیا تھا۔ 
 
میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد ایمن اور مدیحہ نے شہر کے ممتاز ترین کالج میں ایڈمیشن لیا۔ وہ دونوں آئ ایس سی کی اسٹوڈنٹس تھیں۔ اپنے کلاس میں ان کی دوستی صرف سنیتا سے تھی جو مزاج کی سادہ لڑکی تھی۔ ایک بات جو کالج میں مشہور تھی وہ سنیتا اور ایمن کے چہرے کی مشابہت تھی۔ دونوں کی شکل و صورت اس قدر ملتی تھی کہ اسٹوڈنٹس کو دونوں پر جڑواں ہونے کا گمان ہوتا۔ تینوں سہیلیاں کینٹین، لائبریری ہر جگہ ایک ساتھ پائ جاتیں ۔ اسی طرح ایلیونتھ کے فائنل امتحان کا وقت قریب آگیا۔ آج ان کا پہلا پیپر تھا جب سنیتا اپنی سیٹ پر نظر نہیں آئ تھی۔ ایمن اور مدیحہ کو فکر لاحق ہوئ۔ پیپر دے کر جب وہ دونوں کالج سے نکلیں تو پی سی او سے سنیتا کے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔ اس کی بڑی بہن نے انہیں بتایا کہ سنیتا کے دل میں سوراخ کا مرض پایا گیا ہے اور آپریشن کے لئے وہ اپنے والد  کے ساتھ چننئ (مدراس) گئ ہے۔ اہمن اورمدیحہ یہ سن کر بے حد افسردہ ہوگئیں اور سنیتا کی صحت یابی کے لئے دعا کرنے لگیں۔ تقریباً دو ماہ کے بعد ان کے امتحان کا رزلٹ بھی آ گیا۔ ایمن اور مدیحہ نے فرسٹ لسٹ میں اپنی جگہ بنائ تھی لیکن ان کی یہ خوشی سنیتا کے بغیر ادھوری تھی کہ اچانک ہی وہ کالج آتی دکھائ دی۔ دونوں خوشی سے دوڑ پڑیں اور سنیتا سے لپٹ گئیں۔ اس کا آپریشن کامیاب رہا تھا۔ وہ تھوڑی کمزور نظر آ رہی تھی۔ اسے امتحان میں شریک نہ ہونے کا بے حد صدمہ تھا۔ دونوں سہیلیاں اسے  سمجھانے لگیں کہ میڈیکل سرٹیفیکٹ پیش کرنے سے اسے آسانی سے بارہویں کی کلاسز اٹینڈ کرنے کی اجازت مل جائے گی لیکن ان کی یہ امید غلط ثابت ہوئ جب پرنسپل نے میڈیکل سرٹیفیکٹ کو ماننے سے انکار کر دیا اور سنیتا کو پھر سے ایلیونتھ کلاس کی طالبہ قرار دیا۔ ایک سال کا نقصان سنیتا برداشت نہ کر پائی اور اس نے اپنے ہی کالج کی چوتھی منزل سے خودکشی کر لی۔ ایمن اور مدیحہ کو سنیتا کی موت سے سخت صدمہ پہنچا۔ پولیس نے کلاس کی ان لڑکیوں سے پوچھ تاچھ کی جنہوں نے اسے چھلانگ لگاتے ہوئے بر وقت دیکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سنیتا کو بہت روکا مگر جب تک وہ اس کے پاس پہنچتیں وہ موت کی آغوش میں سما چکی تھی۔ اُس روز ایمن نے سنیتا کو سبز کپڑوں میں ملبوس کالج کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آخری بار دیکھا تھا۔ 
 
یہی موضوع آج بھی کینٹین میں زیرِ بحث تھا۔ اسٹوڈنٹس افسوس کا اظہار کر رہے تھے کہ محض بارہویں کلاس میں ایڈمیشن نہ ملنے کی وجہ سے سنیتا نے خودکشی جیسی بزدلی کا کام کیا۔ لیکن سنیتا کی حساسیت سے ایمن اور مدیحہ اب آگاہ ہو چکی تھیں۔ دونوں بجھے دل سے کلاسز ختم کر کے کالج سے نکلیں اور الوداعی کلمات کے بعد اپنے اپنے گھر کو روانہ ہوئیں۔ کچھ دور چلنے کے بعد ایمن کو محسوس ہوا کہ وہی لڑکے پھر اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ آج ایمن نے ان سے نپٹنے کا ارادہ کر لیا اور ان کی گاڑی کے رکنے کا انتظار کرنے لگی۔ جیسے ہی گاڑی اس کے قریب آکر رُکی وہ زور زور سے چلانے لگی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا نوجوان پھرتی سے باہر نکلا اور ایمن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ دوسرا نوجوان بھی گاڑی سے باہر نکلا اور کہنے لگا۔ "ہم دونوں سنیتا دی دی کے چھوٹے بھائ ہیں۔ ہم یہاں آپ کو دیکھنے آیا کرتے تھے۔ آپ کی شکل سنیتا دی دی سے بے حد ملتی ہےاس لئے آپ کو دیکھ کر ہمارے زخم بھرنے لگے ہیں اور دی دی کی موت کا احساس کہیں گُم ہو گیا ہے۔ اگر یہ بات آپ پر ناگوار گزری ہے تو آج کے بعد ہم آپ کو کبھی نظر نہیں آئیں گے۔" اس راز کو سن کر ایمن بے اختیار رو پڑی۔ اُس کی غلط فہمی اب دور ہو چکی تھی۔
******
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 323